سیدالعارفین حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ

  • Admin
  • Oct 14, 2021

سیدالعارفین حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ

 « مختصر سوانح حیات »

نام و نسب : 

اسم گرامی سرُ الدین۔

کنیت: ابوالحسن ۔

سری سقطی‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ 

والد کا نام: حضرت شیخ مغلس رحمۃ اللہ علیہ ( صبح کی نماز کو رات کے اندھیرے میں ادا کرنے والا) تھا۔ "سقطی" کا مطلب ’’پرچون فروش‘‘ کے ہیں۔ آپؒ کی بغداد میں پرچون کی دوکان تھی۔

تاریخ ولادت:

آپؒ کی ولادت 155ہجری771ء کو بغداد معلیٰ میں ہوئی۔

 (تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ، ص 1833)

تحصیل علم:

آپ ؒنے ابتدائی تعلیم اپنے محلہ کے مکتب سے حاصل کی، رجوع الی التصوف کے بعد مختلف شیوخ سے علمی و روحانی استفادہ فرمایا اور بالخصوص حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ ، خواجہ حبیب راعیؒ (مصاحبِ خاص حضرت سلمان فارسی علیہ السلام) سے اکتساب فرمایا، اور درجۂ کمال پر فائز ہوئے۔ اس اعتبار سے آپؒ تبع تابعی ہیں۔ 

خلفاء:

سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی، شیخ ابوالحسن نوری، شیخ فتح الموصلی، شیخ عبد اللہ احرار، شیخ سعید ابرار رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔

سیرت و خصائص:

نفس کشتۂ مجاہد ہ، دل زندۂ مشاہدہ، سالک حضرت ملکوت، مشاہد عزت وجبروت، نقطہ دائرہ لایقطی حضرت شیخ وقت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ۔

آپؒ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے دسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں، آپؒ اہل تصوف کے امام اور تمام اصناف ِعلوم میں کمال رکھتے تھے۔ علم و ثبات کے پہاڑ اور مروت و شفقت میں یکتائے زمان تھے ،اور رموز و اشارات میں یگانۂ روزگار تھے۔ حضرت فضیل ابن عیاض رحمۃ اللہ علیہ  اور حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید، اور حضرت خواجہ حبیب راعی رحمۃ اللہ علیہ کے خاص صحبت یافتہ تھے۔ آپ ؒتبع تابعین سے تھے۔ سب سے پہلے جس نے حقائق و معارف کو بغداد میں عام فرمایا وہ آپؒ ہی ہیں، اور عراق کے بہت سے مشائخ آپؒ کے سلسلہ ارادت سے منسلک تھے۔ آپؒ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے ماموں اور شیخ طریقت ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

کہ میں نے اپنے شیخ طریقت جیسا کامل کسی کو بھی نہیں دیکھا۔ حضرت بشر حافی رحمہ اللہ نے فرمایا: 

کہ میں آپؒ کے سوا کسی سے سوال نہ کرتا تھا کیونکہ میں آپؒ کے زہد و تقویٰ سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ جب آپؒ کے دستِ مبارک سے کوئی چیز باہر جاتی ہے تو آپؒ خوش ہوتےہیں۔ 

سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 میں نے کسی کو عبادت میں سری سقطی رحمہ اللہ سے زیادہ کامل نہیں پایا۔ 

70سال کامل گزر گئے لیکن سوائے بیماری اور مرض الموت کے زمین پر پہلو تک نہیں رکھا۔

 (نفحات الانس)

تصوف کی طرف رجحان:

آپ ؒابتدا میں بغداد شریف کے بازار میں پرچون کی دو کان پر بیٹھ کر تجارت کرتے تھے۔ ایک دن خواجہ حبیب راعی رحمہ اللہ آپؒ کی دکان کی طرف سے گذرے، آپؒ نے کچھ چیزیں ان کو پیش کی کہ فقرا ء میں تقسیم کر دیں، انہوں نے فرمایا ’’خیراک اللہ‘‘ اسی روز سے آپؒ کے دل سےدنیا کی محبت محو ہوگئی۔ 

 (شریف التواریخ،ج1،499)

مجاہدہ:

آپؒ کے برابر کسی نے ریاضت و مجاہدہ نہیں کیا، آپؒ فرماتے تھے کہ چالیس برس سے میرا نفس شہد کا آرزو مند ہے، مگر میں نے اس کو نہیں دیا۔

 (شریف التواریخ،ج1،ص،501)

خلوت در انجمن:

آپؒ نے دکان پر پردہ ڈال رکھا تھا، وہاں ہر روز ایک ہزار رکعت نمازِ نفل پڑھا کرتے تھے وہ ایک روز ایک شخص آیا اور پردہ اٹھا کر آپؒ کو سلام کیا، اور کہا فلاں بزرگ نے کوہ لبنان سے آپؒ کو سلام بھیجا ہے، فرمایا وہ پہاڑ میں قیام پذیر ہوئے ہیں اس میں تو کوئی عمدگی نہیں، مرد وہ ہے کہ درمیان بازار کے بیٹھ کر خدا سے مشغول رہے اور ایک دم اُس سے غائب نہ ہو۔ (ایضا)

حج کی دعا:

شیخ علی بن عبدالحمید الغضائیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

 آپؒ نے میرے لیے دعا فرمائی اس کی برکت سے حق تعالیٰ نے مجھے چالیس حج پا پیادہ روزی کیے، جو میں حلب سے جاکر کرتا رہا۔ (ایضا)

تواضع:

آپؒ فرماتے تھے کہ میں دن میں چند بار آئینہ دیکھتا ہوں کہ کہیں شامتِ اعمال سے میرا چہرہ سیاہ تو نہیں ہوگیا۔ (ایضا)

قول و فعل میں مطابقت:

حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مشائخ کرام کے مظہر تھے اور قول و فعل میں ان کے نقش قدم پہ تھے۔ 

چنانچہ ایک مرتبہ آپ ؒصبر کے موضو ع پر تقریر فرمانے لگے، دورانِ تقریر ایک بچھو آپؒ کے پاؤں میں ڈنک مارنے لگا۔ تو لوگوں نے کہا حضور! اس کو مار کر ہٹا دیجئے۔ اس پر آپ ؒنے ارشاد فرمایا کہ مجھے شرم آتی ہے کہ میں جس موضوع پر تقریر کر رہا ہوں اس کے خلاف کام کروں۔ یعنی بچھو کے ڈنک کے مارنے پر بے صبری کا اظہار کروں۔

(ایضا،ص504)

مشہور کرامت:

آپؒ نے ایک مرتبہ ایک شرابی کو دیکھا جو نشے کی حالت میں مدہوش زمین پر گرا ہو ا تھااور اسی نشے کی حالت میں اللہ، اللہ کہہ رہا تھا۔ آپؒ نے اس کا منہ پانی سے صاف کیا اور فرمایا کہ اس بے خبر کو کیا خبر کہ ناپاک منہ سے کس ذات کا نام لے رہا ہے؟آپؒ کے جانے کے بعد جب شرابی ہوش میں آیا تو لوگوں نے اسے بتایا کہ تمہاری بے ہو شی کی حالت میں تمہارے پاس حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تھے اور تمہارا منہ دھو کر چلے گئے ہیں۔ شرابی یہ سن کر بہت ہی شرمندہ ہوا اور شرم و ندامت سے رونے لگا اور نفس کو ملامت کرتے ہوئےکہنے لگا:

اے بے شرم ! اب تو حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ بھی تمہیں اس حالت میں دیکھ کر چلے گئے ہیں، خدا سے ڈر اور آئندہ کے لئے توبہ کر۔ رات کو حضرت سری سقطیؒ نے ایک ندائے غیبی سنی کہ اے سری سقطی !تم نے ہمارے لئے شرابی کا منہ دھویا ہے ہم نے تمہاری خاطر اس کا دل دھو دیا۔ جب حضرت نماز تہجد کے لئے مسجد میں گئے تو اس شرابی کو تہجد کی نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ آپؒ نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے اندر یہ انقلاب کیسے آگیا۔ تو اس نے جواب دیا کہ آپؒ مجھ سے کیوں دریافت فرما رہے ہیں جب کہ آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس پر آگاہ فرما دیا ہے۔ 

 (الروض الفائق،ص244)

وصال:

13 رمضان المبارک 253ہجری13،ستمبر 867ءبروز منگل صبح صادق کے وقت واصل باللہ ہوئے۔ آپؒ کا مزار شریف بغداد میں مقام شونیزیہ میں ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے آپؒ کے نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے والے تمام افرادکی مغفرت فرمادی۔

 (تاریخ ابنِ کثیر)

استفادہ از: https://www.myislamicinfo.in/2020/05/blog-post_54.html

آپؒ کی وصیت:

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ  ارشادفرماتے ہیں کہ جب حضرت سری سقطی رحمۃاللہ علیہ بیمار ہو گئے تو میں آپؒ کی عیادت کو گیا۔ آپؒ کے پاس ہی ایک پنکھا پڑا ہو اتھا۔ میں نے اس کو اٹھا لیا اور آپ ؒکو جھلنے لگا۔آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ جنید!اسے رکھ دو کیونکہ آگ ہو اسے زیادہ تیز اور روشن ہوتی ہے۔ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپؒ سے عرض کیا کہ آپ کی کیا حالت ہے؟آپ ؒنے ارشاد فرمایا : ’’عَبْدٌ مَمْلُوْکٌ لَا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْ ءٍ (یعنی وہ غلام جسے کسی کام کا اختیار نہیں ہوتا)، حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ  فرماتےہیں کہ میں نے آپ سے عرض کیا کہ کچھ وصیت فرمائیں ، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مخلوق کی صحبت کی وجہ سے خالق   عزوجل سے غافل نہ ہونا۔(الروض الفائق )۱۱۶        

استفادہ از: Dawat e islami.net

آپؒ کے چند ملفوظاتِ حسنہ:

1۔ امیر پڑوسیوں، پیشہ ور قاریوں اور بد خُلق علما ءسے دور رہو۔

 2۔کھانا اتنا کھانا چاہئے جس سے زندگی قائم رہے۔

3۔کپڑے پہننے میں نمائش باعثِ عذاب ہے۔

4۔رہائش کے لئے محلات بنانے سے جنت نہیں مل سکتی۔

5۔وہ علم بیکار ہے جس پر عمل نہ کیا ہو۔

6۔مومن وہ ہے جو کاروبار زندگی میں بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہو۔

7۔کاش تمام مخلوقات کا غم میرے دل پر ہوتا ،تاکہ سب فارغ البال ہوتے۔

8۔اگر کوئی اپنے ادب سے عاجز آتا ہے تو دوسروں کے ادب سے ہزار بار عاجز آتا ہے۔

9۔تم کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن کا فعل ان کے قول سے مطابق نہیں رکھتا، مگر بہت کم ایسے بھی ملیں گے جن کا فعل و عمل ان کی زبان سے عین مطابق ہو۔

10۔سب سے بڑا دانشور وہ ہے جو کلام اللہ شریف کی آیات مبارکہ پر غور و فکر کرے اور ان سے تدبر و تفکر کو کام میں لائے۔

11۔جو اپنے نفس کامطیع ہوجاتا ہے اس کے لئے تباہی کے سواء کچھ نہیں ہے۔

12۔جو شخص اپنے آپ کو بلند مرتبہ کہلوانا پسند کرے  وہ نگاہِ حق سے گرجاتا ہے۔

13۔حسنِ خُلق یہ ہے کہ خلقت تجھ سے راضی ہو۔

14محض گمان پر کسی سے علیحدگی اختیار مت کرو۔

15۔بغیر عتاب کے کسی کی صحبت مت چھوڑو۔

16۔اس شخص سے بچو جو باعزت ہو کر مجلس میں بیٹھے اور بے عزت ہوکر نکالا جائے۔

17۔عشق حقیقی تو وہ ہے جو جذبہ عمل کو تیز کردے۔

18۔حق پر چلنے والے کا پاؤں شیطان کے سینہ پر ہوتا ہے۔

19۔علم کی مثال سمندر جیسی ہے خواہ کتنا ہی خرچ کرو کم نہ ہوگا۔

20۔جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا دین سالم رہے اور اس کا بدن آرام سے رہے اور رنج و غم میں ڈالنے والے کلام کے سننے سے بچا رہے تو اس کو چاہئے کہ لوگوں سے الگ تھلگ ہوجائے اس لئے کہ یہ زمانہ عزلت اور وحدت کا ہے ۔

21۔سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ تم اپنے نفس پر غالب آجاؤ اور جو شخص اپنے نفس کی تادیب سے عاجز ہے تو پھر اپنے غیر کی تادیب سے بدرجہ اولیٰ عاجز ہوگا ۔

22۔تین چیزیں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی علامت ہیں : لہو و لعب کی کثرت ، ہنسی مذاق اور غیبت و شکایت ۔

استفادہ از:

https://nafseislam.com/articles/hazrat-syeduna-abul-hassan-sirri-saqti

حضرت جنید بغدادی ؒحضرت سری سقطیؒ کے الفاظ نقل فرماتے ہیں: 

٭”نوجوانوں ! بڑھاپے سے پہلے کچھ کام کر لوکیونکہ ضعیف ہو کر کچھ نہ کر سکوگے جیسے کہ میں نہیں کر سکتا “۔ (حضرت جنید بغدادی ؒفرماتے ہیں کہ آپ ؒجب یہ فرما رہے تھے اس وقت بھی آپؒ کی حالت یہ تھی کہ جوان بھی آپؒ کی طرح عبادت نہ کر سکتا تھا)۔ 

سوائے پانچ اشیاءکے تمام دنیا فضول ہے: 

1۔روٹی اس قدر کہ جس سے زندگی قائم رہے۔ 

2۔پانی اتنا جس سے پےاس رفع ہو سکے۔

3۔ کپڑا تنا جس سے ستر عورت (شرعی لباس)ہو سکے۔

4۔ گھر جس میں رہائش ہو سکے۔

5۔ علم اتنا جس پر عمل ہو سکے۔ 

 جو گناہ خواہش کے سبب ہو اس کی بخشش کی اُمید ہو سکتی ہے اور جو گناہ تکبر کی وجہ سے ہو اس کی بخشش کی اُمید نہیں کیونکہ گناہ بھی تکبر کی وجہ سے تھا۔

حضرت سری سقطی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

 علامت ِزہد نفس کا آرام پکڑنا ہے طلب و تلاش سے، اور اُس چیز پہ قناعت کرنا جو بھوک کو زائل کرے اور ستر چھپانے والی چیزوں پر راضی ہونا ہے اور نفس کا فضولیات سے نفرت کرنا اور مخلوق کو دل سے باہر نکال دینا ہے۔آپؒ عبادت کا سرمایہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ  عباد ت کا سرمایہ زہد ہے اور دُنیا سے رُوگردانی سرمایہ قناعت ہے فرمایا کہ زہد میں عیش اچھا نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ میں مشغول ہوتا ہے عارف کا عیش اچھا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ سے علیحدگی اختیار کرتا ہے۔

اقوال:

بندہ محبت میں اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اگر تم اسے تیر یا شمشیر مارو تو اس کو خبر نہ ہو۔

 ہمیشہ عبادت میں کوتاہی کا اقرار کرو جس طرح میں کرتا ہوں۔

جو وِرد میرا ہے اگر ایک حرف بھی اس سے فوت ہو جائے تو اس کی قضا نہیں۔

حیا اور اُنس دل کے دروازے پر آتے ہیں اگر دل میں زہد اور پاکیزگی پاتے ہیں تو قیام کرتے ہیں ورنہ لوٹ جاتے ہیں۔

اگر دل میں کوئی اور چیز ہوتی ہے تو یہ پانچ چیزیں اس میں نہیں ٹھہرتیں۔(۱۔خدا کا خوف ،۲:خدا تعالیٰ سے اُمید رکھنا ،۳:خدا کے ساتھ دوستی، ۴:خدا سے حیا ،۵:خدا تعالیٰ کے ساتھ اُنس)

جس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس قدر قربت ہے اسی قدر اس کی فہم ہے۔

لوگو ںمیں سب سے زیادہ سمجھدار اور عاقل وہ ہے جو قرآن کے اَسرار سمجھتا ہے اور اس پر غوروفکر کرتا ہے۔

قوی ترین خلق وہ ہے جو حق پر صبر کر سکے۔

بندہ اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اپنے دین کو خواہش نفسانی پر ترجیح نہیں دیتا۔

 

قارئین کرام! اولیائے کرام عرفان و ایقان، سلوک وتصوّف، اخلاق و محبت،تعلیم و تربیت، کردار اور انسان دوستی کے مظہراور تبلیغِ حق وصداقت کا سر چشمہ ہیں۔ان معزز و مکرم ہستیوں کے ارفع و اعلیٰ نظامِ اصلاح سازی نے جہاں عوام الناس کی اخلاقی قدروں کو بلندوبالا کیا وہاں ایمان و ایقان کی پُر نور شعاعوں کو ان کے قلوب واَذہان میں سرایت کر کے خدا شناسی کی فضا قائم کی۔ بندگانِ الٰہی کو ذاتِ حق کی اطاعت گذاری اور اس کے حبیبِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کا درس دیا اور مخلوق کو اس کے خالق سے ملانے کی سعی و بلیغ کی۔جیسے کہا گیا ہے:

"تو برائے وصل کردن آمدی"

ان معززومحترم اور برگذیدہ ہستیوں نے ہر دور، ہر زمانے،ہر شہر،ہر خطے، ہر ملک اور ہر نگر میں عرفان و ایقان کی قندیلیں روشن کیں اور خلقِ خدا کوصیحیح اور سچے راستے پر گامزن کرنے کی مسلسل جدوجہدکرتے رہے۔ یہی ان کا مطمع نظر تھا اور ہے اور یہی ان کا مقصد حیات ہے اور یہی ان کے فکر و خیال کا محور و مرکز ہے۔

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

 

کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا؟

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں!

حوالہ جات :

(۱)(دائرة المعارف الاسلامیہ جلد ۱۱ صفحہ۳)

(۲)(کلید التو حید کلان صفحہ نمبر۱۰۴)

(۳)(ابیاتِ باھُو)

(۴)( البقرة ۴۷)

(۵)(تذکرة الاولےاءص۸۳۲)

(۶)(تذکرة الاولےاءص ۸)

(۷)(اخبارالاخےار ص۱۸)

(۸)(کشف المحجوب باب سوم)

(۹)(کشف المحجوب باب سوم)

(۰۱)(رسالہ قشےرےہ ۷۲۱)

(۱۱)(محک الفقر )

(۲۱)(ایضاً)

(۳۱)(عقلِ بےدار)

(۴۱)(بزمِ اولیاءاز امام عبداللہ بن اسعد یافعی ص ۱۷۔۰۷۳)

(۵۱)(ذکر جمیل ص۲۳۳،۴۳۳)

(۶۱)(بانگِ درا)